آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا

آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہو چکا
یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف ہی نہیں
شاید کہ سادگی کا وہ ہنگام ہو چکا
موسم گیا وہ ترک محبت کا ناصحا
میں اب تو خاص و عام میں بدنام ہو چکا
ناآشنائے حرف تھا وہ شوخ جب تبھی
ہم سے تو ترک نامہ و پیغام ہو چکا
تڑپے ہے جب کہ سینے میں اچھلے ہے دو دو ہاتھ
گر دل یہی ہے میرؔ تو آرام ہو چکا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *