اجرت میں نامہ کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو

اجرت میں نامہ کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو
اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو
آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جا کے پہنچے
کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو
واماندگی نے مارا اثنائے رہ میں ہم کو
معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو
افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو
آوارہ خاک میری ہو کس قدر الٰہی
پہنچوں غبار ہو کر میں آسماں تلک تو
آنکھوں میں اشک حسرت اور لب پہ شیون آیا
اے حرف شوق تو بھی آیا زباں تلک تو
اے کاش خاک ہی ہم رہتے کہ میرؔ اس میں
ہوتی ہمیں رسائی اس آستاں تلک تو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *