احوال نہ پوچھو کچھ ہم ظلم رسیدوں کا

احوال نہ پوچھو کچھ ہم ظلم رسیدوں کا
کیا حال محبت کے آزار کشیدوں کا
دیوانگی عاشق کی سمجھو نہ لباسی ہے
صد پارہ جگر بھی ہے ہم جامہ دریدوں کا
عاشق ہے دل اپنا تو گل گشت گلستاں میں
جدول کے کنارے کے نو بادہ دمیدوں کا
ناچار گئے مارے میدان محبت میں
پایا نہ گیا چارہ کچھ اس کے شہیدوں کا
پتے کے کھڑکنے سے ہوتی ہے ہمیں وحشت
کیا طور ہے ہم اپنے سائے سے رمیدوں کا
کیا کیا نہ گیا اس بن صبر اور دماغ و دل
رونق گئی بشرے سے پھر نور بھی دیدوں کا
کرتے ہیں پس از سالے دل شاد گلے لگ کر
سو میرؔ وہ ملنا بھی اب ترک ہے عیدوں کا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *