آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں
برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو
دلک بے قرار رکھتے ہیں
غیر ہی مورد عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
نہ نگہ نے پیام نے وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں
ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو
لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں
چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *