اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے

اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
اک نظر گل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے
حسن کو بھی عشق نے آخر کیا حلقہ بگوش
رفتہ رفتہ دلبروں کے کان میں بالے پڑے
مت نگاہ مست کو تکلیف کر ساقی زیاد
ہر طرف تو ہیں گلی کوچوں میں متوالے پڑے
کیونکے طے ہو دشت شوق آخر کو مانند سر شک
میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے
جوش مارا اشک خونیں نے مرے دل سے زبس
گھر میں ہمسایوں کے شب لوہو کے پرنالے پڑے
ہیں بعینہ ویسے جوں پردہ کرے ہے عنکبوت
روتے روتے بسکہ میری آنکھوں میں جالے پڑے
گرمجوشی سے مرے گریے کی شب آنکھوں کی راہ
گوشۂ دامن میں میرؔ آتش کے پرکالے پڑے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *