اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز

اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز
اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز
اس زلف و کاکل کو گوندھے دیر ہوئی مشاطہ کو
سانپ سے لہراتے ہیں بال اس کے بل کھائے ہنوز
آنکھ لگے اک مدت گذری پائے عشق جو بیچ میں ہے
ملتے ہیں معشوق اگر تو ملتے ہیں شرمائے ہنوز
تہ داری کیا کہیے اپنی سختی سے اس کی جیتے موئے
حرف و سخن کچھ لیکن ہرگز منھ پہ نہیں ہم لائے ہنوز
ایسی معیشت کر لوگوں سے جیسی غم کش میرؔ نے کی
برسوں ہوئے ہیں اٹھ گئے ان کو روتے ہیں ہمسائے ہنوز
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *