اس سخن رس سے اگر شب کی ملاقات رہے

اس سخن رس سے اگر شب کی ملاقات رہے
بات رہ جائے نہ یہ دن رہیں نے رات رہے
فخر سے ہم تو کلہ اپنی فلک پر پھینکیں
اس کے سگ سے جو ملاقات مساوات رہے
مغبچے لے گئے سجادہ و عمامہ اچک
شیخ کی میکدے میں کیونکے کرامات رہے
دھجیاں جامے کی کر دوں گا جنوں میں اب کے
گر گریباں دری کا کام مرے ہاتھ رہے
خاک کا پتلا ہے آدم جو کوئی اچھی کہے
عالم خاک میں برسوں تئیں وہ بات رہے
بات واعظ کی موثر ہو دلوں میں کیونکر
دن کو طامات رہے شب کو مناجات رہے
تنگ ہوں میرؔ جی بے طاقتی دل سے بہت
کیونکے یہ ہاتھ تلے قبلۂ حاجات رہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *