اس کا خیال آوے ہے عیار کی روش

اس کا خیال آوے ہے عیار کی روش
کچھ اس کی ہم نے پائی نہ رفتار کی روش
کیا چال ہے گی زہر بھری روزگار کی
سب اس گزندے کی ہے سیہ مار کی روش
وہ رفت و خیز گرم تو مدت سے ہو چکی
رہتے ہیں اب گرے پڑے بیمار کی روش
جاتے ہیں رنگ و بوئے گل و آب جو چلے
آئی نہ خوش ہمیں تو یہ گلزار کی روش
مائل ہوا ہے سرو گلستاں کا دل بہت
کچھ آ گئی تھی اس میں قد یار کی روش
زندان میں جہاں کے بہت ہیں خراب حال
کرتے ہیں ہم معاش گنہگار کی روش
یوں سر بکھیرے عشق میں پھرتے نہیں ہیں میرؔ
اظہار بھی کریں ہیں تو اظہار کی روش
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *