آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا
لڑ کے ملنا ہے آپ سے بے لطف
یار ہووے نہ عذر خواہ تو کیا
کب رخ بدر روشن ایسا ہے
ایک شب کا ہے اشتباہ تو کیا
بے خرد خانقہ میں ہیں گو مست
وہ کرے مست یک نگاہ تو کیا
اس کے پرپیچ گیسو کے آگے
ہووے کالا کوئی سیاہ تو کیا
حسن والے ہیں کج روش سارے
ہوئے دو چار رو براہ تو کیا
دل رہے وصل جو مدام رہے
مل گئے اس سے گاہ گاہ تو کیا
ایک اللہ کا بہت ہے نام
جمع باطل ہوں سو الٰہ تو کیا
میرؔ کیا ہے فقیر مستغنی
آوے اس پاس بادشاہ تو کیا