اس کی طرز نگاہ مت پوچھو

اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو
کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی
گمرہاں یوں یہ راہ مت پوچھو
نوگرفتار دام زلف اس کا
ہے یہی رو سیاہ مت پوچھو
ہیں گی برگشتہ وے صف مژگاں
پھر گئی ہے سپاہ مت پوچھو
تھا کرم پر اسی کے شرب مدام
میرے اعمال آہ مت پوچھو
تم بھی اے مالکان روز جزا
بخش دو اب گناہ مت پوچھو
میرؔ عاشق کو کچھ کہے ہی بنے
خواہ وہ پوچھو خواہ مت پوچھو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *