پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ
لاکھوں جتن کیے نہ ہوا ضبط گریہ لیک
سنتے ہی نام آنکھ سے آنسو گرے کروڑ
زخم دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو
اب ضبط گریہ سے ہے ادھر ہی کو سب نچوڑ
گرمی سے برشگال کی پروا ہے کیا ہمیں
برسوں رہی ہے جان کے رکنے کی یاں مروڑ
بلبل کی اور چشم مروت سے دیکھ ٹک
بے درد یوں چمن میں کسو پھول کو نہ توڑ
کچھ کوہکن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام
بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ
بے طاقتی سے میرؔ لگے چھوٹنے پران
ظالم خیال دیکھنے کا اس کے اب تو چھوڑ