بیٹھا ہوں میں ابھی ٹک سارا جہاں ڈبو کر
اب کل نہیں ہے تجھ کو بے قتل غم کشوں کے
کہتے تو تھے کہ ظالم خوں ریزی سے نہ خو کر
کہتے ہیں راہ پائی زاہد نے اس گلی کی
روتا کہیں نہ آوے ایمان و دیں کو کھو کر
ہے نظم کا سلیقہ ہرچند سب کو لیکن
جب جانیں کوئی لاوے یوں موتی سے پرو کر
کیا خوب زندگی کی دنیا میں شیخ جی نے
تعبیر کرتے ہیں سب اب ان کو مردہ شو کر
گو تیرے ہونٹ ظالم آب حیات ہوں اب
کیا ہم کو جی کی بیٹھے ہم جی سے ہاتھ دھو کر
کس کس ادا سے فتنے کرتے ہیں قصد ادھر کا
جب بے دماغ سے تم اٹھ بیٹھتے ہو سو کر
ٹکڑے جگر کے میرے مت چشم کم سے دیکھو
کاڑھے ہیں یہ جواہر دریا کو میں بلو کر
احوال میرؔ جی کا مطلق گیا نہ سمجھا
کچھ زیر لب کہا بھی سو دیر دیر رو کر