کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے
یہ راہ و روش سرو گلستاں میں نہ ہو گی
اس قامت دلچسپ کا انداز دگر ہے
یہ بادیۂ عشق ہے البتہ ادھر سے
بچ کر نکل اے سیل کہ یاں شیر کا ڈر ہے
وہ ناوک دلدوز ہے لاگو مرے جی کا
تو سامنے ہو ہمدم اگر تجھ کو جگر ہے
کیا پھیل پڑی مدت ہجراں کو نہ پوچھو
مہ سال ہوا ہم کو گھڑی ایک پہر ہے
کیا جان کہ جس کے لیے منھ موڑیے تم سے
تم آؤ چلے داعیہ کچھ تم کو اگر ہے
تجھ سا تو سوار ایک بھی محبوب نہ نکلا
جس دلبر خود کام کو دیکھا سو نفر ہے
شب شور و فغاں کرتے گئی مجھ کو تو اب تو
دم کش ہو ٹک اے مرغ چمن وقت سحر ہے
سوچے تھے کہ سودائے محبت میں ہے کچھ سود
اب دیکھتے ہیں اس میں تو جی ہی کا ضرر ہے
شانے پہ رکھا ہار جو پھولوں کا تو لچکی
کیا ساتھ نزاکت کے رگ گل سی کمر ہے
کر کام کسو دل میں گئی عرش پہ تو کیا
اے آہ سحرگاہ اگر تجھ میں اثر ہے
پیغام بھی کیا کریے کہ اوباش ہے ظالم
ہر حرف میاں دار پہ شمشیر و سپر ہے
ہر بیت میں کیا میرؔ تری باتیں گتھی ہیں
کچھ اور سخن کر کہ غزل سلک گہر ہے