نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو
یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے
دین نگاہ حسرت و ایمان آرزو
آیا تو اور رنگ رخ یاس چل بسا
جانے لگا تو چلنے لگی جان آرزو
اس مجہلے کو سیر کروں کب تلک کہ ہے
دست ہزار حسرت و دامان آرزو
پامال یاس آہ کہاں تک رہوں گا میرؔ
سرمشق کیوں کیا تھا میں دیوان آرزو