اوصاف مو کے شعر سے الجھاؤ پڑ گیا

اوصاف مو کے شعر سے الجھاؤ پڑ گیا
دانتوں کو سلک در جو کہا میں سو لڑ گیا
جیتے جی یہ ملا نہ رہا سو رہا غریب
جو دل شکستہ ساتھ سے اس کے بچھڑ گیا
کیا اس کے دل جلے کی تمامی میں دیر ہو
جیسے چراغ صبح شتابی نبڑ گیا
فرہاد پہلوان محبت پہاڑ تھا
بے طاقتی جو دل نے بہت کی پچھڑ گیا
گل رنگ رنگ شاخ سے نکلا بہار میں
آنکھیں سی کھل گئی ہیں جو مرجھا کے جھڑ گیا
یاں حادثے کی باؤ سے ہر اک شجر حجر
کیسا ہی پائدار تھا آخر اکھڑ گیا
شرماوے سرو ہووے اگر آدمی روش
وصف اس کے قد کا میرؔ سے سن کر اکڑ گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *