غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا
موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی وے نہیں
کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا
چھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیونکے تا سر دیوار جائے گا
دے گی نہ چین لذت زخم اس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا
آوے گی اک بلا ترے سر سن لے اے صبا
زلف سیہ کا اس کی اگر تار جائے گا
باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا
لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
آئے بن اس کے حال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہو گا پاس سے جب یار جائے گا
کوچے کے اس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میرؔ
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا