اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق
خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا ہوں
تو بھی تو ایک شب ہو شمع مزار عاشق
اے بحر حسن ہووے یہ آگ سرد ٹک تب
جوں موج ہو لبالب تجھ سے کنار عاشق
دلخواہ کوئی دلبر ملتا تو دل کو دیتے
گر چاہنے میں ہوتا کچھ اختیار عاشق
پلکوں کی اس کی کاوش ہر دم جب ایسی ہووے
مشکل کہ جی سے جاوے پھر خار خار عاشق
کیا جانے محو جو ہو اپنے ہی رو و مو کا
گذرے ہے کس طرح سے لیل و نہار عاشق
خواری کا موجب اپنی ہے اضطراب ہر دم
دل سمجھے تو رہے بھی کچھ اعتبار عاشق
آنکھوں تلے سے سرکے وہ چشم مست ٹک تو
جاتا دکھائی دیوے رنج و خمار عاشق
کیا بوجھ بھاری سے میں ناکام کاٹتا ہوں
دنیا سے ہے نرالا کچھ کاروبار عاشق
اس پردے میں غم دل کہتا ہے میرؔ اپنا
کیا شعر و شاعری ہے یارو شعار عاشق