اے کاش کوئی جا کر کہہ آوے یار سے بھی

اے کاش کوئی جا کر کہہ آوے یار سے بھی
یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی
تا چند بے دماغی کب تک سخن خشن ہو
کوئی تو بات کریے اخلاص پیار سے بھی
یک معنی شگفتہ سو رنگ بندھ گئے ہیں
الوان گل ہیں ہر سو اب کے بہار سے بھی
کیا جیب و آستیں ہی سیلاب خیز ہے یاں
دریا بہا کریں ہیں میرے کنار سے بھی
باغ وفا سے ہم نے پایا سو پھل یہ پایا
سینے میں چاک تر ہے دل اب انار سے بھی
راہ اس کی برسوں دیکھی آنکھیں غبار لائیں
نکلا نہ کام اپنا اس انتظار سے بھی
جان و جہاں سے گذرا میں میرؔ جن کی خاطر
بچ کر نکلتے ہیں وے میرے مزار سے بھی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *