آیا سو آب تیغ ہی مجھ کو چٹا گیا

آیا سو آب تیغ ہی مجھ کو چٹا گیا
تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا
کیا شہر خوش عمارت دل سے ہے گفتگو
لشکر نے غم کے آن کے مارا چلا گیا
موقوف یار غیر جلانا مرا نہیں
جو کوئی اس کے کان لگا کچھ لگا گیا
تنہائی بیکسی مری یک دست تھی کہ میں
جیسے جرس کا نالہ جرس سے جدا گیا
کیا تم سے اپنے دل کی پریشانی میں کہوں
دریائے گریہ جوش زناں تھا بہا گیا
روزانہ اب تو اپنے تئیں سوجھتا نہیں
آخر کو رونا راتوں کا ہی دن دکھا گیا
سررفتگی بدی مری ننوشتنی ہے میرؔ
قاصد جو لے کے نامہ گیا سو بھلا گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *