آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں

آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں
بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے
ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں
جا کر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گو پہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں
دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں
آ نکلے تھے جو حضرت میرؔ اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں
تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *