مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا
خجلت سے ان لبوں کے پانی ہو بہ چلے ہیں
قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا
مجنوں نے حوصلے سے دیوانگی نہیں کی
جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وتیرا
اس راہزن سے مل کر دل کیونکے کھو نہ بیٹھیں
انداز و ناز اچکّے غمزہ اٹھائی گیرا
کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی
شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا
آئینے کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو
حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا
نیت پہ سب بنا ہے یاں مسجد اک بڑی تھی
پیر مغاں موا سو اس کا بنا حظیرا
ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے
ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا
غیرت سے میرؔ صاحب سب جذب ہو گئے تھے
نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا