ایسے دیکھے ہیں اندھے لوگ کہیں

ایسے دیکھے ہیں اندھے لوگ کہیں
پھوٹی سہتے ہیں آنجی سہتے نہیں
مر گئے ناامید ہم مہجور
خواہشیں جی کی اپنے جی میں رہیں
دیر دریا کنارہ کرتا رہا
عشق میں آنکھیں اپنی زور بہیں
مرتے تھے اس گلی میں لاکھوں جہاں
ہم بھی مارے گئے ندان وہیں
دیر سے میرؔ اٹھ کے کعبے گئے
کہیے کیا نکلے جا کہیں کے کہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *