ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
ایک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
تھی چشم داشت مجھ کو اے دلبراں یہ تم سے
دل کو مرے اڑا کر آنکھوں میں گھر کرو تم
اس بزم خوش کے محرم ناآشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم
ہے پیچ دار از بس راہ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم
یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گذرے
سوگند ہے تمھیں اب جو درگذر کرو تم
روئے سخن کہاں تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم
ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب
گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم
کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم قطع نظر کرو تم