ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جا کر
دل کا راز کیا میں ظاہر بلبل سے گلزار میں لیک
اس بے تہ نے صحن چمن میں جان دی چلا چلا کر
جیسا پیچ و تاب پر اپنے بالیدہ تھا ویسا ہی
مارسیہ کو رشک سے مارا ان بالوں نے بل کھا کر
ڈھونڈتے تا اطفال پھریں نہ ان کے جنوں کی ضیافت میں
بھر رکھی ہیں شہر کی گلیاں پتھر ہم نے لالا کر
ہاہا ہی ہی نے شوخ کی میرے تنگ کیا خوش رویاں کو
سرخ و زرد ہوئے خجلت سے چھوٹے ہاہاہاہا کر
چاہ کا جو اظہار کیا تو فرط شرم سے جان گئی
عشق شہرت دوست نے آخر مارا مجھ کو رسوا کر
میرؔ یہ کیا روتا ہے جس سے آنکھوں پر رومال رکھا
دامن کے ہر پاٹ کو اپنے گریۂ زار سے دریا کر