بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں

بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں
رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں
ظل حق ہم کو بھی ووہیں چاہیے
جوں ہماری ہوتی ہیں پرچھائیاں
اس مژہ برہم زدہ نے بارہا
عاشقوں میں برچھیاں چلوائیاں
نونہال آگے ترے ہیں جیسی ہوں
ڈالیاں ٹوٹی ہوئیں مرجھائیاں
ایک بھی چشمک نہ اس مہ کی سی کی
آنکھیں تاروں نے بہت جھمکائیاں
ایک نے صورت نہ پکڑی پیش یار
دل میں شکلیں سینکڑوں ٹھہرائیاں
رویت اپنی اس گلی میں کم نہیں
ہر جگہ ہر بار ماریں کھائیاں
بوسہ لینے کا کیا جس دم سوال
ان نے باتیں ہی ہمیں بتلائیاں
روکشی کو اس کی منھ بھی چاہیے
ماہ کے چہرے پہ ہیں سب جھائیاں
مضطرب ہو کر کیا سب میں سبک
دل نے آخر خفتیں دلوائیاں
چل چمن میں یہ بھی ہے کوئی روش
ناز تاکے چند بے پروائیاں
شوق قامت میں ترے اے نونہال
گل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں
پاس مجھ کو بھی نہیں ہے میرؔ اب
دور پہنچی ہیں مری رسوائیاں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *