برسوں گذرے ہیں ملے کب تئیں یوں پیار رہے

برسوں گذرے ہیں ملے کب تئیں یوں پیار رہے
دور سے دیکھ لیا اس کو تو جی مار رہے
وہ مودت کہ جو قلبی ہو اسے سو معلوم
چار دن کہنے کو اس شوخ سے ہم یار رہے
مرگ کے حال جدائی میں جئیں یوں کب تک
جان بیتاب رہے دل کو اک آزار رہے
وجہ یہ تھی کہ ترے ساتھ لڑی آنکھ اس کی
ہم جو صورت سے تھے آئینے کی بیزار رہے
دین و دنیا کا زیاں کار کہو ہم کو میرؔ
دو جہاں داونخستیں ہی میں ہم ہار رہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *