گری ہو کے بے ہوش مشاطہ یک سو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
کیا اس کو بد خو بنا کر نکورو
نہ درگیر کیونکر ہو آپس میں صحبت
کہ میں بوریا پوش وہ آتشیں خو
ہوا ابر و سبزے میں چشمک ہے گل کی
کریں ساز ہم برگ عیش لب جو
بہار آئی گل پھول سر جوڑے نکلے
رہیں باغ میں کاش اس رنگ ہم تو
رہے آبرو میرؔ تو ہے غنیمت
کہ غارت میں دل کی ہے ایمائے ابرو