لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہوائے گل
رعنا جوان شہر کے رہتے ہیں گل بسر
سر پر ہمارے داغ جنوں کے ہیں جائے گل
دل لوٹنے پہ مرغ چمن کے نہ کی نظر
بے درد گل فروش سبد بھر کے لائے گل
حیف آفتاب میں پس دیوار باغ ہیں
جوں سایہ وا کشیدہ ہوئے ہم نہ پائے گل
بوئے گل و نوائے خوش عندلیب میرؔ
آئی چلی گئی یہی کچھ تھی وفائے گل