دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ
ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و زشت سے
کیا آئینہ کرے ہے بسر یاں حیا کے ساتھ
گو دست لطف سر سے اٹھا لے کوئی شفیق
دل کا لگاؤ اپنا ہے دست دعا کے ساتھ
تدبیر دوستاں سے ہے بالعکس فائدہ
ہے درد عاشقی کو خصومت دوا کے ساتھ
کی کشتی اس کی پاک زبردست عشق نے
جن نے ملائے ہاتھ ٹک ایک اس بلا کے ساتھ
اوباش لڑکوں سے تو بہت کر چکے معاش
اب عمر کاٹیے گا کسو میرزا کے ساتھ
کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میرؔ
آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ