بہار آئی ہے غنچے گل کے نکلے ہیں گلابی سے

بہار آئی ہے غنچے گل کے نکلے ہیں گلابی سے
نہال سبز جھومے ہیں گلستاں میں شرابی سے
گروں ہوں ہر قدم پر میں ڈھہا جاتا ہے جی ہر دم
پہنچتا ہوں کبھو در پر ترے سو اس خرابی سے
نہ ٹھہری ایک چشمک بھی بسان برق آنکھوں میں
کلیجہ جل گیا اے عمر تیری تو شتابی سے
نکل آتے ہو گھر سے چاند سے یہ کیا طرح پکڑی
قیامت ہو رہے گی ایک دن اس بے حجابی سے
یہ جھگڑا تنگ آ کر میں رکھا روزشمار اوپر
کروں کیا تم تو لڑنے لگتے ہو حرف حسابی سے
بہت رویا نوشتے پر میں اپنے دیکھ قاصد کو
کہ سر ڈالے غریب آتا تھا خط کی بے جوابی سے
مبادا کارواں جاتا رہے تو صبح سوتا ہو
بہت ڈرتا ہوں میں اے میرؔ تیری دیر خوابی سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *