آنا ہوا کہاں سے کہیے فقیر صاحب
ہر لحظہ اک شرارت ہر دم ہے یک اشارت
اس عمر میں قیامت تم ہو شریر صاحب
بندے پہ اب نوازش کیجے تو کیجے ورنہ
کیا لطف ہے جو آئے وقت اخیر صاحب
دل کا الجھنا اپنے ایسا نہیں کہ سلجھے
ہیں دام زلف میں ہم اس کے اسیر صاحب
فکر جگر رہے ہے اس دم غلام کو بھی
جس دم لگو ہو کرنے تم مشق تیر صاحب