باز خواہ خوں نہ تھا مارے گئے مارے گئے
بار کل تک ناتوانوں کو نہ تھا اس بزم میں
گرتے پڑتے ہم بھی عاجز آج واں بارے گئے
چھاتی میری سرد آہوں سے ہوئی تھی سب کرخت
استخواں اب اس کے اشک گرم سے دھارے گئے
بخت جاگے ہی نہ ٹک جو ہو خبر گھر میں اسے
صبح تک ہم رات دیواروں سے سر مارے گئے
میرؔ قیس و کوہکن ناچار گذرے جان سے
دو جہاں حسرت لیے ہمراہ بیچارے گئے