بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے

بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے
الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے
دل دھڑکے ہے جاتے کچھ بت خانے سے کعبے کو
اس راہ میں پیش آوے کیا ہم کو خدا جانے
ہے محو رخ اپنا تو آئینے میں ہر ساعت
صورت ہے جو کچھ دل کی سو تیری بلا جانے
کچھ اس کی بندھی مٹھی اس باغ میں گذرے ہے
جو زخم جگر اپنے جوں غنچہ چھپا جانے
کیا سینے کے جلنے کو ہنس ہنس کے اڑاتا ہوں
جب آگ کوئی گھر کو اس طور لگا جانے
میں مٹی بھی لے جاؤں دروازے کی اس کے تو
اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
اپنے تئیں بھی کھانا خالی نہیں لذت سے
کیا جانے ہوس پیشہ چکھے تو مزہ جانے
یوں شہر میں بہتیرے آزار دہندے ہیں
تب جانیے جب کوئی اس ڈھب سے ستا جانے
کیا جانوں رکھو روزے یا دارو پیو شب کو
کردار وہی اچھا تو جس کو بھلا جانے
آگاہ نہیں انساں اے میرؔ نوشتے سے
کیا چاہیے ہے پھر جو طالع کا لکھا جانے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *