دکھلائی دے جہاں تک میدان ہو رہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہو رہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہو رہا ہے
ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر
مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہو رہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہو رہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہو رہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہو رہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میرؔ صاحب طوفان ہو رہا ہے