بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق

بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق
کیا جا کے دو چار اس سے ہو ناچار ہے عاشق
وہ دیکھنے کو جاوے تو بہتر ہے وگرنہ
بدحال و ستم دیدہ و بیمار ہے عاشق
رہتا ہے کھڑا دھوپ میں دو دو پہر آ کے
بے جرم سدا اس کا گنہگار ہے عاشق
اٹھتا نہیں تلوار کے سائے کے تلے سے
یعنی ہمہ دم مرنے کو تیار ہے عاشق
چسپاں ہوئے ہیں میرؔ خریدار سے تنہا
کیا جنس ہے معشوق کہ بازار ہے عاشق
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *