اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں
کیا پہناوا خوش آتا ہے لڑکے چسپاں پوشوں کا
مونڈھے چسے ہیں چولی پھنسی ہے ٹیڑھی ٹیڑھی کلاہیں ہیں
ضبط گریہ دل سے ہو تو کوزے میں دریا کرتا ہے
حوصلہ داری جن کی ہو ایسی عشق میں ان کو سراہیں ہیں
جب سے جدا میں ان سے ہوا ہوں حال عجب ہے روز و شب
چشم تر سے ٹپکے ہیں آنسو خشک لبوں پر آہیں ہیں
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے رہ جاتے ہیں چپکے سے
چھاتی سراہیے ان لوگوں کی جو چاہت کو نباہیں ہیں
دل الجھے ان بالوں میں تو آخر سودا ہوتا ہے
کوچے کو زنجیر کے یعنی زلفوں سے دو راہیں ہیں
یہ بھی سماں خوش ترکیبوں کا میرؔ نہ اپنے دل سے گیا
سوتے سے اٹھ کر آنکھیں ملے ہیں لے انگڑائی جماہیں ہیں