تا پھونکیے نہ خرقۂ طامات کے تئیں

تا پھونکیے نہ خرقۂ طامات کے تئیں
حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں
کیفیتیں اٹھے ہیں یہ کب خانقاہ میں
بدنام کر رکھا ہے خرابات کے تئیں
ڈریے خرام ناز سے خوباں کے ہمنشیں
ٹھوکر سے یہ اٹھاتے ہیں آفات کے تئیں
ہم جانتے ہیں یا کہ دل آشنا زدہ
کہیے سو کس سے عشق کے حالات کے تئیں
خوبی کو اس کے ساعد سیمیں کی دیکھ کر
صورت گروں نے کھینچ رکھا ہات کے تئیں
اتنی بھی حرف ناشنوی غیر کے لیے
رکھ کان ٹک سنا بھی کرو بات کے تئیں
سید ہو یا چمار ہو اس جا وفا ہے شرط
کب عاشقی میں پوچھتے ہیں ذات کے تئیں
آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر
کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں
آنکھوں نے میرؔ صاحب و قبلہ ورم کیا
حضرت بکا کیا نہ کرو رات کے تئیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *