تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب

تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب
یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب
وصل میں کیا کیا صحبتیں رنگیں کس کس عیش میں دن گذرے
تنہا بیٹھ رہے ہیں یک سو ہجر میں یہ صحبت ہے اب
جب سے بنائے صبح ہستی دو دم پر یاں ٹھہرائی
کیا کیا کریے اس مہلت میں کچھ بھی ہمیں فرصت ہے اب
چور اچکے سکّھ مرہٹے شاہ و گدا زرخواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے اب
پاؤں پہ سر رکھنے کی مجھ کو رخصت دی تھی میرؔ ان نے
کیا پوچھو ہو سر پر میرے منت سی منت ہے اب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *