اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں
پیری ہے اب تو کہیے سو کیا کہیے ہم نشیں
کس رنج و غم میں گذریں ہیں اپنی جوانیاں
ظلم و ستم سے خون کیا پھر ڈبا دیا
برباد کیا گئیں ہیں مری جاں فشانیاں
میں آپ چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں
خوش آ گئیں ہیں اس کی مجھے بد زبانیاں
سنتا نہیں ہے شعر بھی وہ حرف ناشنو
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
باتیں کڈھب رقیب کی ساری ہوئیں قبول
مجھ کو جو ان سے عشق تھا میری نہ مانیاں
مجلس میں تو خفیف ہوئے اس کے واسطے
پھر اور ہم سے اٹھتیں نہیں سرگرانیاں
عالم کے ساتھ جائیں چلے کس طرح نہ ہم
عالم تو کاروان ہے ہم کاروانیاں
سررفتہ سن نہ میرؔ کا گر قصد خواب ہے
نیندیں اچٹتیاں ہیں سنے یہ کہانیاں