تجا ہے حیرت عشقی سے گفتگو کو ہم

تجا ہے حیرت عشقی سے گفتگو کو ہم
خموش دیکھتے رہتے ہیں اس کے رو کو ہم
اگرچہ وصل ہے پر ہیں طلب میں سرگرداں
پہ وہم کار ہی جاتے ہیں جستجو کو ہم
اب اپنی جان سے ہیں تنگ دم رکا ہے بہت
ملا ہی دیں گے تری تیغ سے گلو کو ہم
جلا کے خاک کرے وہ کہ رہ کے داغ کرے
لگا دیں آگ سے کیا اپنی گرم خو کو ہم
مرید پیر خرابات یوں نہ ہوتے میرؔ
سمجھتے عارف اگر اور بھی کسو کو ہم
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *