خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے
ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن
مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے
گہے زیر برقع گہے گیسوؤں میں
غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے
مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی
دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے
جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ
جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے
لگا لے ہے جھمکے دکھا کر اسی کو
جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے
اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا
یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے
بلا شور انگیز ہے چال اس کی
اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے
نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی
مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے
یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے
ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے
مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو
جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے
پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ
وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے
جہاں میرؔ عاشق ہوا خوار ہی تھا
یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے