دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں
جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ کیا کیا
در پردہ شوخیاں ہیں پھر بے حجابیاں ہیں
چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر
دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیاں ہیں
جی بکھرے دل ڈھہے ہے سر بھی گرا پڑے ہے
خانہ خراب تجھ بن کیا کیا خرابیاں ہیں
مہمان میرؔ مت ہو خوان فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں