بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے
اب کے بگڑے گی اگر ان سے تو اس شہر سے جا
کسو ویرانے میں تکیہ ہی بنا بیٹھیں گے
معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خونریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے
ہو گا ایسا بھی کوئی روز کہ مجلس سے کبھو
ہم تو ایک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے
جا نہ اظہار محبت پہ ہوسناکوں کی
وقت کے وقت یہ سب منھ کو چھپا بیٹھیں گے
دیکھیں وہ غیرت خورشید کہاں جاتا ہے
اب سر راہ دم صبح سے آ بیٹھیں گے
بھیڑ ٹلتی ہی نہیں آگے سے اس ظالم کے
گردنیں یار کسی روز کٹا بیٹھیں گے
کب تلک گلیوں میں سودائی سے پھرتے رہیے
دل کو اس زلف مسلسل سے لگا بیٹھیں گے
شعلہ افشاں اگر ایسی ہی رہی آہ تو میرؔ
گھر کو ہم اپنے کسو رات جلا بیٹھیں گے