گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ
اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی ہے
کب منھ ادھر کرے گا وہ آہوئے رمیدہ
یوسف سے کوئی کیونکر اس ماہ کو ملاوے
ہے فرق رات دن کا از دیدہ تا شنیدہ
بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا
ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ
کیا وسوسہ ہے مجھ کو عزت سے جینے کا یاں
نکلا نہ میرے دل سے یہ خار ناخلیدہ
ہم کاڑھ کر جگر بھی آگے تمھارے رکھا
پھر یا نصیب اس پر تم جو ہوئے کبیدہ
سائے سے اپنے وحشت ہم کو رہی ہمیشہ
جوں آفتاب ہم بھی کیسے رہے جریدہ
منصور کی نظر تھی جو دار کی طرف سو
پھل وہ درخت لایا آخر سر بریدہ
ذوق سخن ہوا ہے اب تو بہت ہمیں بھی
لکھ لیں گے میرؔ جی کے کچھ شعر چیدہ چیدہ