کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا
کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا
کوہ فرہاد سے کہیں آگے
سر مرا اور سنگ خارا تھا
ہم تو تھے محو دوستی اس کے
گو کہ دشمن جہان سارا تھا
لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی
جب تلک لطف کچھ تمھارا تھا
آستاں کی کسو کے خاک ہوا
آسماں کا بھی کیا ستارہ تھا
پاؤں چھاتی پہ میری رکھ چلتا
یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا
موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف
گشت تھا دید تھا نظارہ تھا
اس کی ابرو جو ٹک جھکی ایدھر
قتل کا تیغ سے اشارہ تھا
عشق بازی میں کیا موئے ہیں میرؔ
آگے ہی جی انھوں نے ہارا تھا