ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے
اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب
کل اس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے
وہ گل کو خوب کہتی تھی میں اس کے رو کے تیں
بلبل سے آج باغ میں جھگڑے بڑے رہے
فرہاد و قیس ساتھ کے سب کب کے چل بسے
دیکھیں نباہ کیونکے ہو اب ہم چھڑے رہے
کس کے تئیں نصیب گل فاتحہ ہوئے
ہم سے ہزاروں اس کی گلی میں گڑے رہے
برسوں تلک نہ آنکھ ملی ہم سے یار کی
پھر گو کہ ہم بصورت ظاہر اڑے رہے
یعنی کہ اپنے عشق کے حیران کار میرؔ
دیوار کے سے نقش در اوپر کھڑے رہے