جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے

جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے
دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے
آمد و رفت دم کے اوپر ہم نے بنائے زیست رکھی
دم سو ہوا ہے آوے نہ آوے کس کو بھروسا دم کا ہے
گہ صوفی چل میخانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
ابر ہے باراں باؤ ہے نرمک رنگ بدن میں جھمکا ہے
کیا امید رہائی رکھے ہم سا رفتہ وارفتہ
دل اپنا تو زنجیری اس زلف خم در خم کا ہے
دل کی نہیں بیماری ایسی جس میں ہو امید بہی
کیا سنبھلے گا میرؔ ستم کش وہ تو مارا غم کا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *