فراق ایسا نہیں ہوتا کہ پھر آتے نہیں جا کر
اگرچہ چپ لگی ہے عاشقی کی مجھ کو حیرت سے
کبھو احوال پرسی تو کرو دل ہاتھ میں لا کر
جو جانوں تجھ میں بلبل تہ نہیں تو کیوں زباں دیتا
زباں کر بند سارے باغ میں مجھ کو نہ رسوا کر
فلک نے باغ سے جوں غنچۂ نرگس نکالا ہے
کہیں کیا جانوں کیا دیکھوں گا چشم بستہ کو وا کر
سبد پھولوں بھرے بازار میں آئے ہیں موسم میں
نکل کر گوشۂ مسجد سے تو بھی میرؔ سودا کر