کام اس شوق کے ڈوبے ہوئے کا پار کیا
آ گیا عشق میں جو پیش نشیب اور فراز
ہوکے میں خاک برابر اسے ہموار کیا
کیا کروں جنس وفا پھیرے لیے جاتا ہوں
بخت بد نے نہ اسے دل کا خریدار کیا
اتفاق ایسے پڑے ہم تو منافق ٹھہرے
چرخ ناساز نے غیروں سے اسے یار کیا
ایسے آزار اٹھانے کا ہمیں کب تھا دماغ
کوفت نے دل کی تو جینے سے بھی بیزار کیا
جی ہی جاتے سنے ہیں عشق کے مشہور ہوئے
کیا کیا ہم نے کہ اس راز کو اظہار کیا
دیکھے اس ماہ کو جو کتنے مہینے گذرے
بڑھ گئی کاہش دل ایسی کہ بیمار کیا
نالۂ بلبل بے دل ہے پریشان بہت
موسم گل نے مگر رخت سفر بار کیا
میرؔ اے کاش زباں بند رکھا کرتے ہم
صبح کے بولنے نے ہم کو گرفتار کیا