کس مرتبے میں ہو گی سینوں کی خستہ حالی
درگیر کیونکے ہو گی اس سفلہ خو سے صحبت
دیوانگی یہ اتنی وہ اتنا لا ابالی
بے اختیار شاید آہ اس سے کھنچ گئی ہو
جب صورت ایسی تیری نقاش نے نکالی
اتنی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی ہے
ترکیب اس کی گویا سانچے میں گئی ہے ڈھالی
وصل و فراق دونوں بے حالی ہی میں گذرے
اب تک مزاج کی میں پاتا نہیں بحالی
میں خاکسار ان تک پہنچی دعا نہ میری
وے ہفتم آسماں پر ان کا دماغ عالی
آنکھیں فلک کی لاکھوں تب جھپتیاں ہی دیکھیں
مانند برق خاطف تیغ ان نے جب نکالی
کل فتنہ زیر سر تھے جو لوگ کٹ گئے سب
پھر بھی زمین سر پر یاروں نے آج اٹھا لی
طفلی میں ٹیڑھی سیدھی ٹوپی کا ہوش کب تھا
پگڑی ہی پھیر رکھی ان نے جو سدھ سنبھالی
معقول اگر سمجھتے تو میرؔ بھی نہ کرتے
لڑکوں سے عشق بازی ہنگام کہنہ سالی